01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 10
آں چست
از روز میری
قسط نمبر10
"راز آنکھیں تیری
سب بیاں کر رہی
سن رہا دل تیری' خاموشیاں
کچھ کہو نا سنو
پاس میرے رہو
عشق کی کیسی ہیں یہ' گہرائیاں
سایہ بھی جسم سے' ہوتا ہے کیا جدا
جتنی بھی زور کی ہوں آندھیاں"
ہال کے صوفے پہ بیٹھا احد ریہڑسل کرنے میں محو تھا فی الفور اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی کا ہاتھ اسکی انگلیوں میں انگلیاں ڈالے گیٹار پہ چلت پھرت کر رہا ہے جس پہ وہ فورا زبان کے ساتھ ہاتھ کی حرکت سے باز رہا۔
"چڑیل" والی بات پہ احد پہلے ہی خوف کا شکار تھا ایسے میں ہر دوسرے تیسرے روز پراسرار احساس اسے مزید خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔
"احد بیٹا کچھ کھایا پیا بھی ہے یا بس گلا ہی پھاڑ رہے ہو؟"۔ راضیہ بیگم کے ہمراہ نگینہ بیگم بھی روم سے نکلتے اس طرف آئیں۔
"ابھی تک تو کچھ نہیں ماما' ایک کپ کافی بنا دیں"۔ چہرے کے نقوش ڈھیلے کرتے احد نے چہرہ سامنے اٹھایا۔
"میں ابھی بنا کر لاتی ہوں"۔ راضیہ بیگم نے کچن کا راستہ ناپا۔
"احد بیٹا کافی گرم ہوتی ہے کوشش کیا کرو اسکی لت سے باز رہو"۔ احد کے بائیں ہاتھ پہ رکھے چھوٹے صوفے پہ بیٹھتے نگینہ بیگم نے تنبیہ کی۔
"جی نانو میں بس کبھی کبھی پیتا ہوں' زیادہ تر سردیوں میں"۔ احد نے تائید کرتے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"بیٹا احد کے ساتھ ایک چڑیل سایہ ہے"۔ روم میں بیڈ پہ بیٹھے وہ گزشتہ روز رونما ہوئے واقعے کے بارے میں سوچ کر ہنوز خوف و ہیبت میں گھری چلی جا رہی تھی۔
"حرا مجھے دیر ہو رہی ہے پلیز میرے لیئے ناشتہ بنا دو"۔ شہریار عجلت میں واش روم سے نکلتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
"حرا یار میری بات سن بھی رہی ہو؟"۔ حرا کو "ٹس سے مس" نا ہوتے دیکھ شہریار نے اس جانب منہ کیئے آواز قدرے بلند کی۔
"ج ج جی؟"۔ حرا بوکھلاہٹ میں بیڈ سے اٹھی۔
میں نے کہا مجھے دیر ہو رہی ہے جا کر ناشتہ بنا دو"۔ شہریار نے بے زارگی میں الفاظ دہرائے۔
"جی اچھا"۔ حرا دروازے کی جانب بڑھی۔
"رہنے دو میں آفس جا کر ہی کر لوں گا' پتہ نہیں کن خیالوں میں گم ہے؟"۔ شہریار نے اسے ٹوک کر بیڈ پہ رکھا بیگ اٹھایا اور روم سے نکل گیا۔
کھا جانے والا اکیلا پن حرا کے خوف میں دگنا اضافہ کر رہا تھا۔ شہریار کے روم سے جاتے ہی وہ بھی روم سے نکل کھڑی ہوئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"کیا ہو گیا ہے بہو؟ اتنی ہڑبڑائی ہوئی کیوں ہو؟"۔ کچن کی طرف جاتے راستے کے بیچ حرا راہ میں حائل ٹیبل سے ٹکرا گئی جس پہ نگینہ بیگم نے اسے ٹوکا۔
"ک ک کچھ نہیں نانو جان"۔ حرا اور احد جو بات کے قہر سے واقف تھے' ڈرے' سہمے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
"اب یہاں کھڑی کیوں ہو؟ جاو نا"۔ اسکو ساکن کھڑا دیکھ نگینہ بیگم نے چڑ کر کہا جس پہ وہ دھیان جھٹکتے کچن کی جانب بڑھی۔
"بھابی سب کو بتا ہی نا دیں ورنہ مشکل ہو جائے گی"۔ احد بڑبڑایا۔
"بیٹا تم نے کچھ کہا؟"۔ احد کی طرف دیکھتے نگینہ بیگم نے کنفرم کیا۔
"نہیں نانو کچھ نہیں"۔ احد نے مصنوعی مسکراہٹ نگینہ بیگم کی طرف اچھالی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ارے ارے یہ کہاں کی تیاریاں شروع؟ بھول گئی میں نے کچھ کہا تھا تم سے' میرا چھوڑو ڈاکٹر نے بھی کوئی ہدایت کی تھی اسی کو یاد رکھ لیتی مشائم"۔ مسائم بیڈ سے نیچے ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی جب احد اسکے روم میں داخل ہوا۔
"کیا مطلب؟"۔ احد کی سنجیدگی کے پیچھے سے جھانکتی شرارت سے بے خبر مشائم چڑ گئی۔
"مطلب یہ کہ میرا نہیں تو کم از کم ڈاکٹر کی ہی بات کا لحاظ رکھ لیتی"۔ مشائم کے قریب آتے احد نے سینے کے گرد بازو لپیٹے۔
"تمھارا کہنے کا مطلب ہے کہ میں تمھاری بات نہیں سنتی؟"۔ اپنی جانب انگلی کیئے مشائم نے کہا۔
"نہیں"۔ سنجیدگی پہ ضبط نا رہتے ہوئے احد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"احد کے بچے"۔ بیڈ سے کشن اٹھاتے مشائم نے اسکی جانب اچھالا۔
"پینڈنگ پہ ہیں شادی کی طرح"۔ کشن کیچ کرتے احد نے شرارت سے کہا۔
"احد"۔ نا چاہتے ہوئے بھی لال لالی مشائم کے چہرے پہ امڈ آئی تھی۔
"جی احد کی ٹینشن؟"۔ مشائم کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھتے احد نے متبسم انداز میں کہا۔
"میں تمھاری ٹینشن ہوں؟"۔ مشائم نے غصے میں کہا جس پہ احد نے نفی میں سر ہلا دیا۔
"مرو گے میرے ہاتھوں"۔ احد کی پیشانی پہ ہلکی سی تھپکی لگاتے مشائم ہنس دی جس پہ احد فرش پہ جا گرا۔
"تمھارے ہاتھوں یہ بھی قبول ہے' دل و جان سے"۔ ٹانگیں سیدھی کرتے احد نے ہاتھ پیچھے کی اور فرش پہ رکھ لیئے تھے۔
"اب باتیں ہی بناتے رہو گے یا مجھے پریکٹس بھی کرواو گے؟"۔ مشائم نے ہنسی غائب کرتے بناوٹی سنجیدگی سے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"اسلام و علیکم"۔ حویلی پہنچتے ہی احد نے جونہی انٹرنس پار کی اسکا فون چنگارا' پینٹ کی پاکٹ سے فون نکالتے اسنے سکرین کو دیکھا جہاں ڈائریکٹر نبیل کا نمبر چمک رہا تھا۔
"و علیکم اسلام احد کیسے ہو؟"۔ دوسری جانب پرتپاک انداز میں کہا گیا تھا۔
"ایم گڈ' وٹس اپ؟ آفٹر آ لانگ ٹائم"۔ احد نے خوش کن انداز میں کہا۔
"تم تو جانتے ہو ہم لوگ کتنا بزی ہوتے ہیں اور ۔۔۔"۔
"اور کام کے علاوہ کسی کو یاد بھی نہیں کرتے پھر میسج یا کال تو دور کی بات ہے"۔ احد نے اسکی بات کاٹتے قہقہ لگایا۔
"بالکل"۔ احد کی بات پہ نبیل کی ہنسی چھوٹی۔
ڈائریکٹر نبیل احد کے بہترین دوستوں میں سے ایک تھا جسکے ساتھ احد کا ہنسی مذاق پیک پہ تھا۔
"اچھا بتاو کیوں کال کی؟"۔ ہال میں صوفے پہ بیٹھتے احد نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔
"یار ایک گانا ہے یا یوں کہہ لو کہ اس گانے میں تمھاری آواز کا جادو چلانا ہے"۔
"مطلب ایلبم ریلیز کرنی ہے"۔ احد نے تصدیق چاہی۔
"ہاں ایلبم ریلیز کرنی ہے مگر اس ایلبم میں کوئی اور ہیرو کاسٹ نہیں کر رہا صرف تمھیں ہی لوں گا"۔
"ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں"۔ احد نے حامی بھرتے کہا۔
"یہ ہوئی نا بات' ٹھیک ہے تم پھر آ جاو کل سیٹ پہ باقی باتیں کل یہاں ہوں گی"۔ نبیل نے کہا۔
"اوکے اس سے پہلے سیلری تو سیٹ کر' سیٹ پہ پھر ملاقات ہوگی"۔ احد شریر ہوا۔
"یار گھر کی بات ہے تم جتنے پہ راضی میں دینے کو تیار ہوں"۔ نبیل نے پرمسرت انداز میں کہا۔
"چلو ٹھیک ہے کل ملتے ہیں' بائے"۔ جونہی اسنے کال ڈسکنیکٹ کی الزبتھ اسکے پاس آ بیٹھی۔
فون ٹیبل پہ رکھتے احد نے اسے اٹھا لیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشو یار سچ میں' میں اب رہ ہی نہیں سکتا"۔ فون کان کے ساتھ لگائے احد نے بیڈ پہ بیٹھتے تاج سے ٹیک لگا لی۔
"کیا مطلب؟ اب کیا ہو گیا ہے؟؟"۔ مشائم نے انجان بنتے کہا۔
"مطلب بھی اب سمجھانا پڑے گا؟"۔
"ہاں ظاہر سی بات ہے احد' میں کوئی نجومی تھوڑی نا ہوں؟"۔ مشائم نے ہنسی دبائی۔
"ہمیشہ دل میں رہنے والے انسان کے دل کی ہر بات سے آپ باخبر رہتے ہو اور تم بول رہی ہو کہ میں کوئی نجومی نہیں"۔ احد نے بناوٹی ناراضگی سے کہا۔
"احد میں بھی تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی"۔ مشائم کی بات پہ احد کا چہرہ کھل سا گیا تھا۔
"بہت ہو گئی نا دوری بس میں کل ہی ماما پاپا سے بات کرتا ہوں کہ ہماری شادی کی تاریخ طے کر دیں بلکہ میں تو کہتا ہوں تاریخ کی کیا ضرورت ہے ڈائریکٹ شادی ہی کر دیں"۔ تاج کی ٹیک چھوڑتے وہ سیدھا ہوا۔
"بس کرو احد اتنے اتاولے نا ہو جاو پاگل"۔ مشائم ہنس دی۔
"مشو آج نبیل کی کال آئی تھی نیو ایلبم ریلیز کرنے کا بول رہا تھا"۔
"پھر تم نے کیا کہا؟"۔ مشائم نے تجسس سے پوچھا۔
"ہاں بول دیا آخر میرا تو کام ہی یہی ہے اور مزے کی بات پتہ ہے کیا ہے اس ایلبم میں ہیرو میں ہوں"۔ احد نے لطف اندوز ہوتے کہا۔
"کیا واقعی؟"۔ مشائم نے خوش نوائی سے کہا۔
"جی"۔
"اور ہیروئن؟"۔ دل آویزی سے پوچھا گیا۔
"پتہ نہیں"۔
"یہ تو غلط بات ہے احد تمھاری ہیروئن تو میں ہوں نا پھر تمھارے ساتھ میری جگہ کوئی اور کیوں کاسٹ ہوگی؟؟"۔ مشائم نے خفگی سے کہا۔
"کیونکہ مجھے یہ اچھا نہیں لگے گا کہ تمھیں میرے علاوہ کوئی اور جی بھر کے دیکھے"۔
"مطلب یہ گوارہ ہے کہ تم کسی اور کو میری جگہ دے کر اپنی بانہوں میں لے کر ڈانس کرو' ہے نا؟"۔ مشائم نے چڑ کر کہا۔
"نہیں' مشو اٹس مائی پروفیشن' جان جو مقام تمھارا میرے دل میں ہے کسی اور کا نہیں ہے نا ہی کبھی ہو سکتا ہے۔ احد سمعان کا ایک ہی دل ہے جو میں آل ریڈی تمھیں دے چکا ہوں اب ہزار دل تو ہیں نہیں جو میں اوروں میں بانٹا پھروں؟"۔ احد نے فی البدیہہ جواب دیا۔ "یار تم اپنا موازنہ ان ایکٹریسز سے مت کیا کرو' آئی ڈونٹ لائک دس"۔
"ٹھیک ہے نہیں کروں گی"۔ احد کی بات کی گہرائی تک پہنچتے مشائم نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"یار اب ہمیں کسکا ویٹ ہے؟؟"۔ احد سیٹ پہ' چیئر کی بیک سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا' چیئر سے اٹھتے ہی نبیل کی طرف آیا جو لوکیشن چیک کرنے میں منہمک تھا۔
"مجھے تو یہی لوکیشن ٹھیک لگ رہی ہے باقی بدلی بھی جا سکتی ہے' کوئی اشو نہیں ۔۔۔ ہاں احد کہو؟"۔ اپنے برابر کھڑے انسان کو باور کراتے اسنے اپنی توجہ احد کی طرف راغب کی۔
"نبیل یار کافی ٹائم ہو گیا ہے' کسکا ویٹ ہے؟"۔ احد نے تنگ طلبی سے کہا۔
"فاطمہ کا انتظار ہے بس"۔
"فاطمہ؟"۔ احد نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"ہیروئن اس ایلبم کی"۔ نبیل نے مسکراہٹ احد کی جانب اچکائی۔
"اچھا' ایسا کرو مجھے ان لیرکس پہ سر کی وضاحت کر دو کہ کیسے لگانا ہے؟ تاکہ آسانی رہے"۔ بولتے ہی اسنے ہاتھ میں پکڑا پیج نبیل کی طرف کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد تمھارا سین یہ ہو گا کہ تم اس سینری کے سامنے کھڑے ہو گے' پہلے تمھارا چہرہ دائیں جانب ہلکا سا جھکا ہوا ہوگا پھر تم چہرے کو سیدھا کرتے سامنے دیکھو گے مگر تمھارے لبوں پہ مسکان آخر میں آنی چاہیئے شروع میں یوں لگے کہ تم آنکھوں سے گفتگو کی کوشش میں ہو"۔ اپنے مقابل سمت کی طرف اشارہ کرتے نبیل نے احد سے کہا۔
جبکہ احد کے برابر کھڑی فاطمہ اسی کی منتظر تھی کہ کب اسے اپنے سین کے بارے میں مطلع کیا جائے۔
"فاطمہ تم اس پلڑ کے ساتھ کھڑی ہو گی' اپنا بائیاں ہاتھ اوپر کی طرف کر کے اور چہرہ قدرے ہمارے طرف' نظریں جھکا کر اور لبوں پہ ہنسی۔ دوسرے سین پہ جب گانے کے لیرکس ہوں گے "قطرہ بھی تیرا ملے جو رگ رگ میں میری بساوں" اس پہ احد آہستہ سے چلتا تمھاری طرف آئے گا جبکہ تم ہلکی دوڑ لگاتے احد کی طرف آو گی اور احد تم اسے لفٹ کرو گے"۔ فاطمہ کو صورت حال سے دوچار کرتے نبیل نے احد کا رخ کیا۔
"لفٹ کرنا ہے؟"۔ احد چونکا۔
"ہاں لفٹ کرنا ہے کیوں کوئی پرابلم ہے؟"۔ نبیل نے تصدیق چاہی۔
"ن نہیں"۔
احد کی سوچ کا محور اس وقت مشائم تھی جسے احد کا دوسری لڑکیوں کے ساتھ ہونا قطعا پسند نہیں تھا جو بات عموما ہر لڑکی کی خصلت کا خاصہ ہوتی ہے۔
اپنے من چاہے انسان کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا' اسے ہاتھ لگانا ایک لڑکی کیلیئے عام طور پہ جیلسی کا سبب بنتی ہے' ہونی بھی چاہیئے لیکن ایسے انسان دنیا میں کم ہی پائے جاتے ہیں۔ جنہیں میسر ہوں ان سے بڑھ کر کوئی خوش نصیب نہیں ہوتا اور احد انہی میں سے ایک تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆